مالیگاؤں (محمد اطہر ندوی) مرشد الامت حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات حسرت آیات پر مولانا علی میاں ندوی فاؤنڈیشن میں 23 رمضان المبارک 1444ھ مطابق 15 اپریل 2023ء بروز بدھ ایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی۔ اس نشست کی صدارت مولانا محمد مسلم ندوی دامت برکاتہم نے فرمائی، اور نظامت کے فرائض مولانا محمد عمران اسجد ندوی صاحب نے انجام دیے،قرأت قرآن و نعت خوانی کے بعد تحریک صدارت مولانا محمد اطہر ندوی صاحب نے پیش کی، تائید مولانا ساجد خان ندوی صاحب کی۔ مولانا محمد عمران اسجد ندوی صاحب (صدر ادارہ خزیمہ بن ثابت) نے تعزیتی نشست کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ مرشدالامت کے وصال کی وجہ سے امت مسلمہ صدمے سے دوچار ہے اور اس صدمے نے بطور خاص ہندوستانی مسلمانوں کو یتیم کر دیا ہے۔ اس صدمے اور رنج و الم کی حالت سے باہر آنے کے لیے تعزیت اور تسلی ضروری ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایت "اذکروا محاسن موتاکم" پر عمل کرتے ہوئے مولانا مرحوم کے اوصاف حمیدہ کو بیان کرنے کے لیے یہ نشست منعقد کی گئی ہے ۔
مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب (سیکرٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) کی نمائندگی کرتے ہوئے مفتی عامر یاسین ملی نے کہا کہ جس دن مولانا مرحوم کا وصال ہوا اسی دن مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے گہرے رنج کا اظہار کیا تھا اور فرمایا تھا کہ مولانا محمد رابع حسنی ندوی صاحب ؒ کا وجود پوری ملت اسلامیہ کے لیے ایک شجر سایہ دار کی طرح تھا۔ مولانا محمد ایوب قاسمی صاحب (ناظم مدرسہ تجویدالقرآن مالیگاؤں) نے فرمایا کہ مولانا محمد رابع حسنی ندوی صاحب ؒ کی سادگی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا اگر سائیکل رکشے پر بیٹھتے تو چڑھائی کے وقت اتر کر رکشے کو خود دھکا لگاتے۔مولانا یاسین ندوی صاحب(استاذ دارالعلوم محمدیہ مالیگاؤں) نے کہا حضرت ناظم صاحب کو مرحوم کہتے ہوئے جسم پر لرزہ طاری ہو رہا ہے لیکن موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے انکار ناممکن ہے۔
مولانا زبیر احمد ملی صاحب (استاذ حدیث معہد ملت مالیگاؤں) نے فرمایا کہ یہ سانحہ صرف ندوہ یا ابنائے ندوہ کے لیے حادثہ نہیں ہے بلکہ دیگر اداروں اور تنظیموں کے لیے بھی غم کا باعث ہے۔ پھر حضرت مرشدالامت کی جرات بیانی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ گجرات فسادات کے بعد حیدرآباد کے ایک اجلاس میں مولانا نے ارشاد فرمایا تھا کہ گجرات جیسے خوں آشام فسادات سے مسلمانوں کو مرعوب نہیں کیا جاسکتا۔ مزید بتایا کہ مولانا علی میاں ندوی ؒ کے بعد حضرت ناظم صاحب ہی سے میرا اصلاحی تعلق تھا اور اس سلسلے میں مَیں مراسلت سے مخاطبت کی ضرورت پوری کرتا تھا اور پھر مولانا مرحوم کے اردو عربی خطوط کے حوالے سے (جو انہوں نے مولانا زبیر صاحب کو جوابا لکھے تھے) اپنے تعلق کو ظاہر کیا۔
مولانا نعیم الظفر نعمانی ندوی صاحب (نائب امام جامع مسجد مالیگاؤں) نے اپنے زمانہ طالب علمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ندوے میں ہر دس پندرہ دن کے بعد والد صاحب حضرت مولانا محمد حنیف ملی صاحب ؒ کا خط آتا اور اس میں اکابرین ندوہ کو سلام پہنچانے کی ذمہ داری ہوتی اسی بہانے سے میرا رابطہ ان حضرات سے بڑھ گیا تھا۔ تدریس کے تئیں مولانا مرحوم کے احساس ذمہ داری کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ الادب العربي جو خود مولانا مرحوم ہی کی تصنیف ہے اسے ہم نے مولانا ہی سے پڑھا، مولانا مرحوم کا یہ معمول تھا کہ اسے بھی بغیر مطالعے کے نہیں پڑھاتے تھے۔مولانا محمد ادریس عقیل ملی قاسمی صاحب(شیخ الحدیث معہد ملت مالیگاؤں) نے تسلی بخش کلمات ارشاد فرمائے اور کہا ہمارے یہ بزرگ جب دنیا سے چلے جاتے ہیں تو ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ یہ خلا پر نہیں ہوگا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ کہ اس انداز کا نہیں لیکن خلا پر ہوجاتا ہے، یہ قدرت کا ایک نظام ہے کہ بڑے لوگوں کے گذر جانے کے بعد چھوٹے لوگ بڑے ہوجاتے ہیں اور گزرے ہوئے بڑوں ہی کی طرح کارنامے انجام دیتے ہیں۔
مولانا جمال عارف ندوی صاحب(مہتمم جامعہ ابوالحسن علی ندوی ؒ مالیگاؤں) نے کہا کہ اس مختصر سی مجلس میں مولانا مرحوم کے اوصاف و محاسن وقت کی نزاکت کو ملحوظ رکھ کر مختصراً بیان کیے جا رہے ہیں لیکن دنیا دیکھے گی ان کے محاسن پر ہزاروں لاکھوں صفحات لکھے جائیں گے۔ مرشدالامت حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی صاحب ؒ کو جو مقبولیت حاصل تھی اس کی بنیادی وجہ ان کی تواضع، انکساری اور فنائیت تھی، تقریبا 75 برس تک مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ کے ساتھ گزارا ان کی تربیت سے آراستہ ہوئے ان کے افکار و خیالات سے استفادہ کیا، یہی وجہ ہے کہ حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ کے بعد انکے افکار و خیالات ہی نہیں بلکہ شکل و شباہت میں بھی یگانگت ہوگئی اور ایسی کہ لوگوں کو پہچاننا مشکل ہوجاتا گویامن تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
کے مصداق تھے۔ حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ کی زندگی کے آخری 25 سال مولانا محمد رابع ندوی صاحب ؒ نے امور نظامت میں مفکر اسلام ؒ کی ایسی معاونت فرمائی کہ انہیں بڑی حد تک تصنیف و تالیف اور دعوتی و تعلیمی اسفار کے مواقع بآسانی ملتے رہے، اس طرح مفکر اسلام کو مفکر اسلام بنانے میں مولانا رابع صاحب ؒ کا بھی گویا بڑا ہاتھ تھا۔مولانا مرحوم خطابت کے ویسے شہسوار نہیں تھے جیسے قلم کے شہسوار تھے، حسن انتظام بہت زبردست تھا، اور تحمل کی صفت نے تو انہیں پرسنل لا بورڈ کا صدر بنادیا اور یہ حلم و بردباری اخیر عمر تک رہی۔ پھر تین واقعات بیان کرکے مولانا مرحوم کے صبر و تحمل اور تواضع و انکساری کو واضح کیا۔ اخیر ميں مولانا محمد مسلم ندوی صاحب(سابق پروفیسر طبیہ کالج مالیگاؤں) نے صدارتی خطاب میں ارشاد فرمایا کہ مولانا رابع حسنی ندوی صاحب ؒ میں رواداری اور دوسروں کو نباہنے کا جو وصف تھا وہ انتہا درجے کو پہنچا تھا، اور کسی تنظیم یا ادارے کو چلانے کے لیے اس کی بہت اہمیت ہوتی ہے، فی زماننا لوگوں میں یہی وصف عنقا ہوتا ہے۔ناظم جلسہ کے رسم شکریہ کے بعد مفتی آصف انجم ملی ندوی صاحب(صدر مولانا علی میاں ندوی فاؤنڈیشن مالیگاؤں) کی دعا پر نشست کا اختتام ہوا۔
حاضرین مجلس میں شہر کے مختلف اداروں تنظیموں کے نمائندگان نے شرکت کی، جن میں درج ذیل مولانا اشتیاق ضمیر ملی ندوی، مولانا مختاراحمد ملی ندوی، مولانا آصف سلیم ندوی، مولانا ضیاء الدین ندوی،مولانا نعیم الرحمن ملی ندوی،مفتی محمد کاظم ملی ندوی ، مولانا انوار ندوی، عبدالعظیم فلاحی،مولانا عرفان احمد ندوی، مولانا سفیان احمد ندوی، مفتی اشفاق احمد ملی، انصاری احسان الرحیم ،مولانا عقیل، احمد ملی قاسمی، مفتی عمران ندوی، مولانا علاء الدین ندوی
0 تبصرے