"اتی کرمن اور اسلام"

مالیگاؤں (ڈاکٹر آصف فیضی) انسان امیر ہو یا غریب،چھوٹا ہو یا بڑا،مرد ہو یا عورت،پچہ ہو یا بزرگ راستے  انسان کی بنیادی ضرورت ہیں۔ترقی کے تمام راستے راستوں ہی کے رہین منت ہیں۔اسکول جانا،بازار،جانا،حصول رزق کے لئے جانا،ہاسپٹل جانا،مسجد جانا مختصر یہ کہ کہیں بھی جانا ہو،راستوں کے بغیر ممکن نہیں۔راستے ہمیں اپنی منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں۔اسی لیے انسان نے جیسے جیسے ترقی کی،راستوں کی ترقی خاص توجہ دی۔پگڈنڈی،کچے راستے،پکے،راستے، سمینٹ روڈ،ڈامر روڈ،ہائے وے،ٹوٹڑیک، فور ٹریک،ایکسپریس ہے وغیرہ راستوں سے متعلق انسان کی خاص توجہ کی دلیل ہیں۔پھر ریل کے راستے،بحری راستے اور ہوائی راستے مستزاد ہیں۔

راستوں کی اسی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر السلام نے راستوں کے اصول اور راستوں کے حقوق بتائے ہیں۔جو ایک مستقل موضوع ہے۔فی الحال راستوں سے متعلق مختصراً کچھ باتیں پیش خدمت ہیں۔راستہ کی چوڑائی کم از کم سات ہاتھ رکھو۔راستے مسافروں کے لئے محفوظ ہوں۔مسافروں کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔ ایمان کے بہت سے شعبے ہیں ان میں پہلا کلمہ یعنی لا الہ الا اللہ اور آخری راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔ انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا بھی صدقہ ہے۔(متفق علیہ)

راستہ چلتے ہوئے ایک شخص کو کانٹوں بھری ٹہنی نظر آئی تو اس نے اسے راستہ سے ہٹا دیا، اس پر اللہ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ ایمان کے بہت سے شعبے ہیں ان میں پہلا کلمہ یعنی لا الہ الا اللہ اورآخری راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔ انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا بھی صدقہ ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ایک شخص صرف اس بنیاد پر جنت میں چلا گیا کہ اس نے راستہ میں موجود درخت کو کاٹ کر ہٹا دیا تھا جس سے لوگوں کو دشواری ہوتی تھی۔ مزکورہ احادیث کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ راستے میں تکلیف دہ چیز رکھنا خلافِ ایمان ہے۔اور جنت یا جہنم میں جانے کا باعث ہو سکتی ہے۔

راستہ پر بیٹھنے سے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یہ تو ہماری مجلسیں ہیں جہاں ہم بات چیت کرتے ہیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بیٹھنا ہی ہے تو راستہ کا حق ادا کرو، صحابہ نے دریافت کیا راستہ کا حق کیا ہے؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا :نظر نیچی رکھو، کسی کو تکلیف مت پہنچاؤ، سلام کا جواب دو، اچھائی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔(بخاری)
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم ایک بار گھر کے سامنے بیٹھ کر باتیں رہے تھے کہ رسول اللہ تشریف لائے فرمایا تم لوگ راستہ پر کیوں بیٹھ جاتے ہو، اس سے بچو، ہم نے عرض کیا کہ ہم ایسے کام کے لیے بیٹھے ہیں جس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہم تو آپس میں باتیں اور تبادلہٴ خیال کے لیے بیٹھے ہیں، اس پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کرنا ہی ہے تو اس کا حق اداکرو، وہ یہ ہے کہ نظر نیچی رکھو، سلام کا جواب دو اور اچھی بات کرو۔(مسلم)

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دولعنت کرنے والوں (یعنی اپنے لیے لعنت کا سبب بننے والے دوکاموں) سے بچو ، صحابہ نے دریافت کیا یہ دونوں کون ہیں؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو راستہ یا وہاں موجود سایہ میں ضرورت سے فارغ ہوتے ہیں۔(مسلم) سہل بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کے حوالے سے بیان کیا کہ ایک غزوہ میں ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، راستہ میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تولوگوں نے خیمے لگانے میں راستہ کی جگہ تنگ کردی، اور عام گذر گاہ کو بھی نہ چھوڑا، اللہ کے رسول کو اس صورتحال کا پتہ چلا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلان کرنے والا بھیجا، جس نے اعلان کیا کہ جو شخص خیمہ لگانے میں تنگی کرے یا راستہ میں خیمہ لگائے تو اس کا جہاد(قبول) نہیں ہے۔(ابو داؤد) معروف بزرگ شیخ ابو طالب المکی المتوفی۳۸۶ھ جن کے افادات امام غزالی رح  نے اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں نقل کیا ہے، انہوں نے بیان کیا ہے کہ ان کے زمانہ میں ثقہ اوردیندار لوگ راستہ پر دھندہ کرنے والوں سے لین دین معیوب سمجھا کرتے تھے۔

امام غزالی رح  نے اپنی معروف کتاب احیاء علوم الدین میں ”منکرات الشوارع “کے نام سے ایک مستقل فصل قائم کیا ہے اوراس میں تفصیل سے راستہ میں کی جانے والی ان تصرفات کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے راستہ چلنے والے کو دشواری ہوتی ہے جیسے گھر کے سامنے ٹنٹ لگانا اور اس کا کھونٹا، سڑک پر گاڑنا، جانوروں کو روڈ پر باندھنا ، پانی کی موری روڈ پر چھوڑنا، بالکونی ، چھجہ وغیرہ راستہ کی جانب نکالنا، انہوں نے ایسے تمام عمل کو مکروہ قرار دیا ہے۔
*لہٰذا ٹریفک قوانین کی خلاف وزی یا راستوں پر کوئی ایسی حرکت جو راہگیروں کے لیے خطرہ یا پریشانی کا باعث بنے جیسے بہت تیز گاڑی چلانا، سڑک پر ریس لگانا، خطرناک طریقہ سے اُور ٹیک کرنا، بلا ضرورت تیز ہارن بجانا ، ریڈ سگنل کراس کرنا، ہر قسم کا اتی کرمن کرنا نہ صرف قانونی بلکہ شرعی جرم ہے۔

نوٹ: راستوں پر شادی بیاہ،موت میت،  مذہبی یا سماجی تقریب کے لئے منڈپ لگانا یا راستہ بند کرنا بھی شرعی جرم ہے۔

نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر سید حسنین احمد ندوی قاسمی، کے مضمون،راستے کے حقوق، مطبوعہ ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7، جلد:101 ‏،شوال 1438 ہجری مطابق جولائی 2017ء، سے ماخوذ ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے