مالیگاؤں میں خودکشی کا بڑھتا رجحان تشویشناک، 18سالہ لڑکی نے زندگی کا خاتمہ کرلیا


گزشتہ چند ماہ میں 48 سے زائد خودکشیوں کے واقعات، سماجی و دینی حلقوں میں تشویش کی لہر

مالیگاؤں (ناؤنیوزاپڈیٹ) شہر مالیگاؤں میں خودکشی کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جس نے نہ صرف سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ دینی و سماجی حلقوں میں بھی گہری تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، صرف چند ماہ کے دوران شہر میں 48 سے زائد خودکشی کے واقعات رونما ہو چکے ہیں، جو معاشرتی بے حسی اور ذہنی صحت کی بگڑتی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔
تازہ ترین واقعہ میں آج دوپہر تقریباً ایک بجے پاک پنجتن چوک کے قریب بانو مریم مسجد کے عقب میں واقع گٹ نمبر 207 میں ایک 18 سالہ نوجوان لڑکی، ثمرن پروین اسلام احمد نے اپنے کرایہ کے مکان میں پھانسی لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ اطلاع ملتے ہی سماجی کارکن عارف بھائی، رضوان میمن، عبدالستار (ایمبولینس ڈرائیور) اور خالد ایس کے فوری طور پر موقع واردات پر پہنچے اور رمضان پولیس اسٹیشن کو مطلع کیا۔ پولیس نے لاش کو فوری طور پر سول اسپتال منتقل کیا، جہاں شفیق اینٹی کرپشن اور احسان شیخ نے قانونی کارروائی میں مدد فراہم کی۔ ذرائع کے مطابق، متوفیہ اپنی والدہ، نانی اور دو چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ مذکورہ مقام پر مقیم تھی۔ ابتدائی طور پر خودکشی کی وجہ سامنے نہیں آ سکی، تاہم اہلِ علاقہ کا کہنا ہے کہ گھریلو پریشانیاں، ذہنی دباؤ اور معاشی مشکلات اس افسوسناک فیصلے کی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ فی الحال پولیس تفتیش جاری ہے۔

اس المناک واقعہ پر رکن اسمبلی مفتی محمد اسماعیل قاسمی نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ والدین و سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی ذہنی حالت اور جذباتی اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھیں۔ انہوں نے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ وہ مشکل وقت میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور جذباتی فیصلوں سے گریز کریں۔ وہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری مولانا عمرین محفوظ رحمانی نے بھی واقعے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں خودکشی قطعی حرام ہے۔ انہوں نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اولاد کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور انہیں دینی و اخلاقی تربیت کے ساتھ جذباتی سہارا بھی دیں۔


عالمی تحریک سنی دعوتِ اسلامیہ کے مقامی ذمہ دار جمیل رضوی نے اس رجحان کو "سماجی المیہ" قرار دیا۔ ان کے مطابق، خودکشی جیسے واقعات کی روک تھام صرف اس وقت ممکن ہے جب معاشرے میں دینی تعلیم، معاشرتی ہم آہنگی اور جذباتی مدد کی فراہمی کو فروغ دیا جائے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اسکولوں، کالجوں اور مدارس میں ذہنی صحت سے متعلق تربیتی نشستیں منعقد کی جائیں، اور معاشرتی سطح پر ماہرینِ نفسیات سے رجوع کو عام کیا جائے۔ یہ واقعہ اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ آج کا نوجوان تناؤ، معاشی دباؤ اور جذباتی ٹوٹ پھوٹ کے بھنور میں پھنس کر زندگی جیسے قیمتی تحفے کو خود ہی ختم کر رہا ہے۔ ایسے میں معاشرے، والدین، علما اور تعلیمی اداروں کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آگے آئیں اور نوجوان نسل کو زندگی سے محبت، مسائل سے لڑنے کا حوصلہ دیں۔ زندگی اللہ کی امانت ہے، اور ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے، بس ضرورت ہے صبر، سمجھداری اور سہارے کی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے